Ibn e Sina

ابن سینا

تجسس اور جستجو انسانی جبلت کی وہ خاصیتیں ہیں جنہوں نے حضرت انسان کو قدیم غاروں کے تاریک دہانوں اور مہیب وسعتوں سے نکال کر آفتاب کی تاب ناک کرنوں سے روشناس کروایا۔ آفتاب کی کرنیں اپنے ساتھ علم کے ننھے دیپ لائیں جن کے نور کی لاٹیں ہمیں کسی نڈرندی کے اَن تھک بہاؤ کی طرح گہرے جنگلوں کی کثیف دھندلاہٹ سے نکال کر بستیوں کے کشادہ پاٹوں میں لے آئیں۔ اپنے اردگرد کے ماحول کو جاننے کے بعد ہم انہی نوری دیپوں سے دشت کی فراخیاں اور آکاش کی بلندیاں ناپنے چل نکلے۔ تیکھے طرارسوال کرنے کی جستجو اور پھر ان کے کامل اور بلیغ جواب کھوجنے کے تجسس اور اشتیاق نے ہماری معاشرت کو نئے رنگ و روپ سے نوازا۔ یوں علم کے دیپ بسیط چراغ بن گئے ۔ تجسس اور جستجو کے شانوں پر کھڑے علم کے ان ستونوں تلے انسان با قاعده قافلوں کی صورت میں تہذیب کی معمار سازی کرنے لگے۔ لہذا انسانی بستیاں عظیم الشان شہروں میں بد لنے لگیں۔ روئے زمیں پر کئی ایک قدیم تہذیبوں کی آب تاب اس بات کا ثبوت ہے۔ کرتے کراتے چلتے چلاتے، قدیم یونانی تہذیب جدید علم کا سرچشمہ ٹھری۔ ایسا لگتا ہے کی یونان سے ایک بحر بےکراں پھوٹا اور ہماری جانب بہہ نکلا، ہم ابھی تک اسی بحر بے کراں میں غوطہ زن ہیں۔ یہ علم کا دھارا جب اسلامی تہذیب کے فکر کدوں میں جلوہ افروز ہوا تو مسلمان صاحبِ علم وفراست نے شہر شہر قریہ قریہ تفہیم و تفکر پر مبنی محفل آرائی کی۔ علم و سخن کی ترویج وتر قی اسلامی تہذیب کا طرۂ امتیاز اور مذہبی فریضہ بن گئی۔ اس سنہرے اسلامی دور میں ایسے متعدد لا زوال نام پیدا ہوئے جن کی عظمت کا چراغ آج تک محوِتاباں ہے۔ انہی ناموں میں سے اک نام ابن سینا (بوعلی سینا) کا بھی ہے۔ لفظ ابن سینا کے لا طینی ترجمے پرمغرب انہیں ایو سینا کے طور پر جانتا ہے۔ ذراتھم کرسوچنے! اورتاریخ کے جھروکے میں جھانک کر دیکھے۔

ایک ایسا عالم جس کی کتاب کم وبیش آٹھ صدیوں تک یورپ اور مشرق بھر کی درسگاہوں کے نصاب میں شامل رہی۔ جی ہاں! ایک ایسی شہرۂ آفاق تصنیف جو صدیوں تک اپنے شعبے میں کسی الہامی صحیفے کی مانند مستند اور موثق تصور کی جاتی رہی۔

ابن سینا کاعلمی شہ پاره (Magnum Opus)’القانون في الطب محفوظ اور معلوم تاریخ کی سب سے اثر آفریں تصانیف میں سے ایک ہے جو صدیوں تک اہل علم کی پیاس بجھاتی رہی۔ ابن سینا 980ء کو سامانی سلطنت کے دارالحکومت اور چاہ ِحشمت وعظمت بخارا کے قریب ایک گاؤ”افنشہ” میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گرامی سامانی سلطنت میں شعبہ مالی امور میں نگراں تھے۔ ابن سینا نے محض دس برس کی مختصر عمر میں قرآن حکیم کی افہام وتفہیم کے ساتھ ساتھ زبان وادب پر بھی خاصا عبور حاصل کرلیا۔ یوں روز اول سے ہی وہ تالیف و تصنیف جیسے ثقیل اور گراں بار کام میں ہاتھ ڈالنے کے لیے کمر کسنے لگے تھے۔ طب اور فلسفے کے علاوہ حکیم الحکما ءابن سینا نے متعدد میدانوں میں تحقیق و تالیف کے کارنامہ ہائے انجام دیے۔ علم فلکیات ، ریاضی ، منطق ، جغرافیہ، ارضیات، اسلامی علم الکلام، کیمیاگری، طبعیات اور نفسیات جیسے واسع الفطرت میدانوں میں انہوں نے قلم آزمائی کی اور ساڑھے چار سو سے زائد کتب تحریر کیں۔ اسکے علاوہ انہوں نے اپنے فکری سوز و گداز کے موتیوں کی شاعرانہ گہر بندی کر کے انہیں ہمیشگی کی ادبی لڑی پر سبادیا۔

حصولِ علم کے لیے ان کی کدوکاوش ان کو جوانی ہی میں نت نئے دروبام پر لے پہنچی۔ سرزمین ہند سے تعلق رکھنے والے ایک سبزی فروش سے انہوں نے ہندوستانی علم اعدادوشمار سیکھا اورگلی کوچوں میں محو دوش اک طبیب اور معلم سے علم طب کی تعلیم لینا شروع کی۔ مزید برآں امام اسماعیل الزاہد کے زیر سایہ اسلامی اصول فقہ میں مہارت حاصل کی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یونانی علماء کی چنیدہ کتب بھی اپنے دائرہ ادراک میں شامل کر لیں۔ ان کتب میں اصناف ارسطو پرفرفوریوں کا مقدمہ(Porphyry’s Introduction/Isagoge on Aristotelian Categories)، عناصر اقلیدس( Euclid’s Elements اور حکیم بطلیموس کا مقالہ فی الفلکیات(Ptolemy’s AImagest) شامل ہیں ۔ لڑکپن میں ہی ان کا واسطه ارسطوی مابعد الطبعیات‘ سے پڑا اور اول اول انکومعقول فہم حاصل کرنے میں خاصی مشکل پیش آئی ۔ پھر ایک کتاب گھر سے انکو درج بالا فلسفیانہ مضمون پر ابونصر الفارابی کی تشرتح ملی۔ محض تین درہم میں خریدی گئی یہ کتاب فلسفہ سمجھنے میں ان کے لیے بیحد کارگر ثابت ہوئی۔ فلسفے کے بعد علم طب انکی دست گاہ بنا۔ گلی کوچوں کے عوام الناس کا مفت علاج کر کے، نت نئے طریقہ کار اور تجربات اپنا کر اور وسیع کتاب بینی سے وہ 8 برس کی مختصر عمر میں ہی ایک قابل طبيب بن گئے۔ عمر کے ان سالوں میں وہ سلطان بخارا نوع بن منصورثانی کے شاہی طبیب مقرر ہوئے۔ مزید برآں اپنے والد کی وفات کے بعد ان کو کارِ سرکار میں انتظامی امور سونپے گئے۔ بعدازاں وہ بخارا چھوڑ کر ملک خوارزم کے دارالحکومت “گرگانج” چلے گئے۔ دار الگو مت ہونے کے ساتھ ساتھ گرگانج علم و فن کا ایک عظیم الشان مرکز اور معروف علماء کا مسکن تھا۔ یہاں ابن سینا کو اپنے سابق استاد ابو سحل المسیحی سمیت ریاضی دان ابونصر منصور ماہر طب ابن الخمار اور فاضل لسانیات الثعبلی کی صحبت نصیب ہوئی۔ جستجوئے پرواز نے انہیں کبھی ایک ٹھکانے پر جمنے نہ دیا اور وہ حیاتی بھر عام و خاص شہروں کا سفر کرتے رہے۔ گرگانج سے کوچ کر کے انہوں نے خراسان کے مختلف شہروں کا سفر کیا اورمختلف دورانیوں کے لیے ہر شہر میں قیام کیا۔ سب سے پہلے وہ “نسا” پہنے اور پھر “طوس” سے ہوتے ہوئے “جرجام” جا پہنچے۔ یہاں سے ایران کے مشہور “رے” شہر چلے گئے جہاں نو برس تک انکا قیام رہا۔ یہاں وہ خاندان ’’بویہ کے حکمران ابوطالب رستم المعروف ماجدالدولہ کے دربار سے منسلک ہو گئے ۔ اسی جاۓ عظمت میں انہوں نے 30 کے قریب کتب لکھیں۔ امرائے سلطنت کے بیچ گردشِ اقدار کے جھگڑوں نے حکیم ابن سینا کو رے چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ “قزوین” میں مختصر قیام کے بعد انہوں نے ہمدان کے لیے رختِ سفر باندھا۔ ہمدان میں وہ بویه حاکم شمس الدولہ کے ذاتی معالج مقرر ہو گئے۔ سونے پر سہاگہ کہ انہیں دربار میں منصب وزارت بھی سونپ دیاگیا۔ جب گردشِ دوراں نے ہمدان سے کوچ کرنے کا سندیسہ سنایا تو وہ مشہور ایرانی شہر اصفہان میں جا جلوہ افروز ہوئے۔ وہاں پروہ “کاکویہ” سلطنت کے بانی اور اہم فرمان روا محمد ابن رستم دشمنزیار بلقب علاءالدوله محمد کے دربار میں شاہی معالج اور ادبی و سائنسی مشیر کے عہدوں پر فائز رہے مگر اصفہان میں دس برس تک بحرِ سطوتِ شاہی کے برلب رہنے کے باوجود بھی انہوں نے اپنا فطری تحقیقی و تالیفی اشتغال ترک نہ کیا۔

ابن سینا قرونِ وسطی کے سنہری اسلامی دور کے اعلی ترین مفکر، فلسفی اور عالمِ طب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک جامع العلوم (Polymath)، شخصیت تھے۔ یہ کہنا بعيد التوازن نہ ہوگا کہ مورخ جب بھی قرون وسطی کے مسلمان سائنسدانوں کا تذکرہ کرے گا، اسکے قلم سے پہلا نام ابن سینا کاہی رقم ہو گا۔

علم طب پرانکی چالیس سے زیادہ کتب انہیں تاریخ ابنِ نوع کے بلند پایه اطباء کی صف میں شامل کرتی ہیں۔ علم طب پرانکا شاہکار القانون في الطب دراصل علمِ طب کا پانچ جلدی مجمع العلوم ( Encyclopedia) ہے جو اسلامی دنیا میں رائج اور زیرِاستعمال طبی علوم اور طریقہ کار کے ساتھ ساتھ ہندوستانی ، چینی، یونانی اور رومن تہذیبوں کی طبی روایات اور طریقہ علاج کا احاطہ کرتا ہے۔ القانون کی پانچ کتب علم طب کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے مروجہ اور تاریخی طب کے اصول ونفاذ کو یکجا کر کے پیش کرتی ہیں۔ پہلی کتاب میں علم طب کا عامیانہ تعارف اور مختلف انسانی اعضاء کی تشریح اور فعالیت کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس کتاب میں علم طب کے بارے میں ابن سینا لکھتے ہیں : علم طب اک ایسی سائنس ہے جس میں ہم انسانی جسم کی نختلف حالتوں کی جانکاری اکٹھی کرتے ہیں، جب یہ بیمار ہوتا ہے تو کھوج لگاتے ہیں کہ حالت صحت کیا ہوگی اور اسے کیسے بحال کیا جائے ، اور جب یہ تندرست ہوتا ہے تو قیاس آرائی کرتے ہیں کہ بیمار کیونکر ہوسکتا ہے۔ لہذٰا طب اک فن ہے جس کا مرکزِ نگاه انسانی بدن کی تندرستی اور درست فعالیت کا استحکام ہے ۔ دوسری کتاب حروف تہجی کی ترتیب میں 800 کے لگ بھگ ادویات کی معلومات فراہم کرتی ہے جس میں ادویات کی تاریخ، ماخذ، استعمال اور تیاری پر سیرحاصل تفصیل شامل ہے۔ اسکے ساتھ ساتھی ادویات کی تیاری کے لیے عمومی ضابطہ کار اور آزمائش پر بھی بحث باندھی گئی ہے۔ تیسری کتاب میں تقریبا ہرجسمانی عضو کی کارکردگی اور انفرادی بیماریوں کا تفسیری بیان ہے۔ مزید برآں ان بیماریوں کی علامات تشخیص اور علاج وادویہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ حیران کن طور پر القانون کے اس حصے میں نیورو سائنس اور دماغ کے امراض پر بھی ایک باب باندھا گیا ہے۔ اسی طرح چوتھی اور پانچویں کتاب میں بھی علم امراضیات اور متعد دادویات کا بیان ہے۔

طب کے بعد فلسفه ابن سینا کے تفکروتعقل کا “میدان کارزار” ٹھہرا۔ اس ضمن میں کتاب الشفا ان کا سائنسی اور فلسفیانہ “مجمع العلوم” ہے۔ فلسفیانہ تدبر اور دانش کا یہ گہرافشاں شہ پارہ واقعتا انسانی دانست کی کج فہمی اور جہل کے لیے اکسیرِ شفا ہے۔ کتاب کے چار حصے منطق، ریاضی، طبیعی علوم اور مابعدالطبیعیات پرمشتمل ہیں۔ تاریخی اعتبار سے اس کتاب میں یونانی اور اولین مسلمان فلاسفہ جیسا کہ ارسطو، بطلیموس، الفرابی اور الکندی کے فکر کی چھاپ بھی نمایاں ہے۔ کتاب الشفا میں مختلف مظاہرِ فطرت کی عقلی اور استنبدادی ( Logical) تو جیحات بُنی گئی ہیں جن میں سیارہ زہرہ کا بنسبت سورج کے زمین کے زیادہ قریب ہونا اور پہاڑوں، چٹانی حجریات کی تشکیل کے عمل شامل ہیں۔ مظاہر فطرت کے بعد “جوہرِفطرت” کے متعدد پہلوؤں میں انہوں نے برہان الصديقين (Proof of the Truthful) فردِ معلق في الفضا (Man The Floating) تجرباتی اصولِ مسلمہ اور نفسیاتی مجذوبیت یا مجبوط الحواس (Hypnosis) جیسے نظریات تعمیر کیے۔ تصور برہان الصدیقین (Proof of the Truthful) وجود باری تعالی کے ایک مسلمہ حقیقت ہونے کے فلسفیانہ استدلال پر مشتمل ہے۔ اس تصور کے مطابق اک واجب الوجود (The Necessary Existent) کا ہونا لازم وملزوم ہے اور اس “واجب الوجود” کی صفات اسلامی تصور خدا کیساتھ مطابقت رکھتی ہیں۔ “فرد ِ معلق” ابن سینا کا ایک تخلیاتی تجربہ (Thought Experiment) ہے جس میں ایک آدمی “فضائے مطلق” میں تیرتے ہوئے اپنا آپ محسوس کرنے کی سعی کرتا ہے۔ اس تجربے کے ذریعے روح و بدن کا باہمی تعلق سمجھنے کی سعی کی ہے۔ ان کے مطابق روح کا وجود جسم کے ساتھ کسی واسطے سے مبـّرا ہوتا ہے۔ اس امر کی دلیل میں وہ فردِ مطلق کا اس لمحے کا وہ احساس پیش کرتے ہیں جب اس کے اردگرد “کچھ بھی نہیں” حتٰی کہ وہ اپنے جسم کو بھی نہیں چھوتا۔ ابن سینا کے مطابق تب بھی اسکو “ہونے کا احساس” ضرور ہوگا۔ یہی “احساسِ روحانی” ہے۔ فلسفہ و سائنس کے بنیادی ترین سوال ” سائنسی اصول مسلم (First Principle) کا ماخذ کیا ہے اور اسکی صداقت کی جانچ کیا ہے؟‘‘ کے جواب میں ارسطوی تصورِ استقرائی استدلال (Inductive Reasoning)‘‘ کا رد کرتے ہوئے تجربے کو سائنسی اصول یا حقائق کی صداقت جانچنے کا مقدم ترین امتحان قرار دیا۔ یعنی کوئی بھی سائنسی سچ یا اصول غلط قرار دیا جاسکتا اگر وہ تجربے کی بھٹی سے “کندن” بن کر نکلنے میں میں ناکام ہو جاتا ہے۔ مزید برآں انہوں نے مجبوط الحواسی (Hypnosis) یا’الو ہم عمل ( کتاب الشفا میں یہ ترکیب استعمال کی گئی ہے ) کو ایک نفسیاتی عارضہ قرار دیا اور اس کا تھیراپیک (Therapeutic) علاج تجویز کیا۔ پہلی دفعہ ابن سینا نے ہی خارجی حوّاس کو پانچ شعبوں (بصیرت، سماعت، لمس، ذائقہ اور بو) میں تقسیم کیا۔ استدلال پر تجربے کی حقانیت جدید سائنسی طریقہ کار (Scientific Method) کا بنیادی ترین ضابطہ ہے۔ کوئی تھیوری قرطاس پر چاہے جتنی بھی خوبصورت (Pattern and Simple) اور متناسب (Symmetric) ہو، اگر یہ تجربات و مشاہدات پر پوری نہیں اترتی، تطبیق (Compatible) نہیں رکھتی ، تو یہ کسی کام نہیں۔ طبعیات کے میدان میں ابن سینا نے اجسام کی حرکت کے متعلق ایک غیر ریاضیاتی تھیوری پیش کی جس کے مطابق اجسام کی حرکت کا باعث خارجی قوت ہے۔ یعنی گیند کو پھینکنے والا گیند میں اچھلنے کی قابلیت منتقل کرتا ہے، اس قابلیت کو ابن سینا نے “مائل” کہا ہے۔ مزید که اگر ہوا کی مخالف قوت نہ ہو تو گیند کو محو پرواز رہے گی۔ ایک سائنسدان اور معلم کے علاوہ ابن سینا ایک سخن ور بھی تھے۔ کائنات کو جاننے اور پرکھنے کے سفر میں ابھرنے والے ان کے احساسات و جذبات کا اظہار کی شاعری میں نمایاں ہے۔ سینہ کا ئنات میں پنہاں اسرارورموز جب انسانی فہم پر آشکار ہوتے ہیں یا پھر مظاہر فطرت کو سمجھنے میں جب ذہن خود کو کھپاتا ہے، تب شاید شاعری ہی اس کیفیت جذب و سرستی کوایک کوزے میں بند کر سکتی ہے۔ ابن سینا کی نظم “النفس” کا مندرجہ ذیل ٹکڑا اس امر کا عکاس ہے:

سرِراہ بھی یہ ہردیدہ ور سے نادیدہ ہے
بے حجاب ہے، کئی پردوں میں پوشیدہ ہے

“تیرے” آنگن میں آ کر آزردہء جبیں ہے
اس مکان سے نکل کر مگر پیکرِحزیں ہے

عالم نور کا وجود، یہاں پل کا مہمان
ورنہ متروک دھند لاصحرا اس کا آستاں

شباب اسکا قید خاکی میں اشک فشاں ہے
قفس میں پابگل شوقِ پروازِ بہارِ جاوداں ہے

اصل نظم اسی عنوان، الننس یعنی روح، سے عربی زبان میں ہے اور درج بالا سطریں راقم الحروف نے اردو میں ترجمہ کی ہیں۔ حکیم ابن سینا نے اپنی تمام عمرشوقِ پرواز میں گزاری۔ موجودہ دور کے ایران، افغانستان ، ترکستان اور وسطی ایشیا کے دور دراز شہروں اور بیابانوں کی خاک میں ان کے نقش پا آسودہ جاوید ہیں۔ البته اخیر عمر انہیں جسمانی مجبوریوں نے آگھیرا، وہ قولنج کی تکلیف میں مبتلا ہو گئے۔ اسی وجہ سے ان کی “عمرِ مدام” کے آخری دس برسں ہمدان اور اصفہان میں گزرے۔ آخرکار استعارہ علم وفضل اور چراغِ راهِ جسجتو 1037 کو اجل کے ابدی سفر پر روانہ ہوگیا۔