حصول علم کے سفر میں مسلمان سائنسدان بھانت بھانت کے شعبہ جات ہائے سائنس و فلسفہ میں مستغرق رہے۔ اس سفر میں انہوں نے نہ صرف موجود اور معاصرعلم سے استفادہ کیا بلکہ ان تھک غور و فکر و تحقیق کے بعد اسے نئی پرشکوہ بلندیوں پر پہنچایا۔ ان عظیم المرتبت شخصیات میں سے آج ہم جس عظیم شخصیت کا ذکر کرنے جارہے ہیں ان کا نام ہے عمر خیام جوایک فارسی ریاضی دان، ماہر فلکیات اور فلسفی تھے۔
عمر خیام 408ھ (بمطابق 1148ء) میں علم و حکمت کے مرکز اور خراسان کے شہر نیشاپور میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم وتربیت وہیں سے حاصل کی۔ انہوں نے زمانے کے جید اور فاضل استاد، امام موافق نیشا پوری اور معاصر ریاضی دان ابو حسن بھمنیار المرزبان سے زانوائے ادب طے کیے۔ نیشاپور میں مروجہ سائنس، فلسفہ، ریاضی اور فلکیات میں کامل عبور حاصل کرنے کے بعد وہ بخارا چلے گئے جہاں وہ بخارا کے سرکاری کتب خانے سے استفادہ کرنے کے لیے جڑ گئے۔ عمرخیام کی متعدد تصانیف ریاضی، فلکیات ، فلسفہ اور موسیقی جسے وسیع و عریض علوم کا احاطہ کرتی ہیں اور ان کتب میں پیش کیے گئے خیالات و تصورات آنے والی صدیوں میں علم کے راہیوں کے لیے “سرائے علمی” کا کام کرتے رہے۔ لہذا ہم تک پہنچنے والے علم ریاضی سمیت دیگر علوم کی کچھ کڑیاں عمر خیام نے وضع کی ہیں۔ مزید برآں اک شاعر کے طور پر خیام کا نام “رباعیات عمر خیام” کی صورت میں ازل کی دیواروں تک درخشاں رہے گا۔ شرق وغرب کی تہذہبی راہوں میں یہ رباعیاں عشق و آگہی کے موتی بن کر محوتاب رہیں گی۔ اک ریاضی دان کی حیثیت سے عمر خیام نے الجبرا، جیومیٹری اور قدرتی اعداد کے متعلق کئی ایک مقالے تحریر کیے۔ مندرجہ ذیل نکات عمر خیام کی ریاضی کی بنیادی شاخوں میں تحقیق اور اشتراک کی عکاسی کرتے ہیں۔
اقلیدس کے عناصر (Elements of Euclid )” میں موجود مفروضات (Postulates) پر لکھے گئے اپنے مقالے میں آپ نے پانچویں اقلیدسی مفروضے (جس کے مطابق، اگر ایک خط دوخطوط کواس طرح قطع کریں کہ اس خط کے ایک ہی پہلو میں بننے والے اندرونی زاویوں کا مجموعہ دو قائمہ زاویوں کے مجموعے سے کم ہوتو دوخطوط لامتناہی حد تک بڑھانے پر ضرور ایک دوسرے سے جاملیں گے اور قطع کریں گے، نیچے تصویر دیکھیے۔)
یعنی مسلمہ متوازی (Parallel Axiom) کو ثابت کرنے کے ممکن طریقہ کار پر سیر حاصل بحث کی اور ثبوت کی ایک منفرد ترکیب پیش کی جو پہلے سے اپنائے گئے طریقوں سے زیادہ بدیہی اورفطری تھی۔ اس ضمن میں انہوں نے پانچویں اور چوتھے اقلیدسی مفروضے کو باہم ملایا اور خیال پیش کیا کہ پانچویں مفروضے کے ثبوت میں چوتھے مفروضے کی عبارت کو استعمال کیا جا سکتا ہے، جس کے مطابق تمام تر قائمہ زاویے (Right Angle) برابر (90 ڈگری) ہوتے ہیں ۔ اس ریاضیاتی بحث میں مستعمل زاویہ قائمہ، زاویہ منفرجہ (Obtuse Angle) اور زاویہ جاده (Acute Angle) کے قیاس اور تصورات آگے جا کر جومیٹری کی جدید شاخوں غیر اقلیدسی بعید البیضوی (Hyperbolic) جیومیٹری ، ریمینین (Riemannian) جیومیٹری اور اقلیدسی جیومیٹری کی بنیاد بنے۔ اس کے علاوہ انہوں نے حقیقی اعداد کی تعریف کے حوالے سے بھی خاصی بحث با ندھی جو ریاضی میں نمبر تھیوری کی بنیادوں میں کام آئی۔
کچھ محققین عمرخیام کو الجبری مساوات (Algebraic Equation) سے “نپٹنے” کے لئے جیومیٹری کی مدد لینے کی تدبیر پر تجزیاتی جیومیٹری (Analytic Geometry) کا بانی اور رینے دیکارت کا پیش روگردانتے ہیں ۔ انہوں نے حل نکالنے کے طریقہ کار کی بنیاد پر مکعب مساوات (Cubic Equation) کی درجہ بندی کی اور ان کے حل کے لیے مخروطی ضمنوں (Conic Sections) کا سہارا لیا۔ الجبرا اور جیومیٹری کو یکجا کرنے کی یہ سعی آنے والے وقت میں زیادہ ڈگری کی مساوات کے حل کے لیے بے حد کارگر ثابت ہوئی۔
اپنے اک مقالے “حساب کی مشکلات” میں عمر خیام نے اعداد کے ن-ویں اصل (nth root) نکالنے کے لیے ایسا کلیہ مرتب کیا جو کسی قسم کی جیومیٹرک اشکال کی مدد سے مبرا تھا۔ اس بنیاد پر تاریخ ء ریاضی کے کئی محقق مانتے ہیں کہ عمر خیام کومعروف دو اصطلاحی مسئلے (Binomial Theorem) کی بنت اور کارسازی کا علم تھا۔ لہذٰا وہ دو اصطلاحی توسیع (Binomial Expansion) کا کلیہ جانتے تھے ۔ دواصطلاحی توسیع کے نتیجے میں وجود پزیر ہونے والی پاسکل کی مثلث کا عمر خیام کو پہلے سے علم تھا اور فارس میں اسے عمر خیام کی مثلث کے طور پر جانا جاتا تھا۔
ریاضی کے بعد فلکیات کے میدان میں عمر خیام نے بیش بہا کارنامے انجام دیے۔ 1074ء کے گردو پیش سلجوقی سلطان ملک شاہ نے عمرخیام کو اصفہان میں ایک رصد گاہ کے قیام اور فارسی تقویم (Calendar) کی اصلاح کا ذمہ سونپا۔ عمرخیام کی قیادت میں آٹھ فلکیات دانوں نے یہ بیڑہ اٹھایا اور 3 سال کی مدت میں عمیق اورتفصیلی فلکی مشاہدات کے بعد مشہورالزماں جلالی کیلینڈر مرتب کیا ۔15 مارچ1079 کویہ تقویم زیر نفاذ آئی اور ابھی تک قابل استعمال ہے۔ جلالی تقویم کا پیمان 1582ء میں مرتب کردہ عیسوی تقویم سے قدرے درست ہے۔ جلالی تقویم کے مطابق پانچ ہزار سالوں میں زیادہ سے زیادہ ایک دن کی خطا کا امکان ہے جبکہ عیسوی تقویم میں ہہی خطا تین ہزار تین سو سالوں میں وقوع پذیر ہو جاتی ہے
عمر خیام خود کو ابن سینا کا فکری اور فلسفیانہ طالب علم خیال کرتے تھے۔ انہوں نے فلسفے کے مہان موضوعات پر 6 کے قریب مقالے لکھے جن میں انہوں نے وجود، انسان اور کائنات کے تعلق، اور مختلف قدرتی مظاہر پر سیر چشم گفت گو کی ہے۔ ان کے فلسفیانہ تصورات اور دلائل انکے بلند علمی قد اور منطقی سمجھ بوجھ کے عکاس ہیں۔ مزید برآں انہوں نے موسیقی اور حساب میں اک باہمی تعلق کی موجودگی کے لیے دلائل پیش کیے۔ اور میوزک تھیوری میں مختلف سازوں اورسروں کی منظم ریاضیاتی درجه بندی وضع کر کے اس تعلق کی وضاحت کی۔
درج بالا علمی وتحقیقی کارناموں کے علاوہ عمر خیام ایک قادرالکلام صوفی شاعر تھے جن کی رباعیات شرق وغرب میں برابر مقبول ہیں ۔ ان ادبی موتیوں کی تابناکی آج بھی چار سو موقص ہے۔ عمرخیام کے تابندہ سفر حیات کو سامنے رکھ کر یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ وہ قرون وسطی کے عظیم الاثر مسلم سائنسدانوں کے درمیان ایک “پولی میتھ” کے درجے کے حامل ہیں۔ ان کو زندگی میں ہی ملک الحکما ء کا خطاب ملا اور ان کے ہم عصر محقق انکو ابن سینا کا کامل فکری جانشین مانتے ہیں۔
عمر کے آخری حصے میں وہ بوجہ زوال صحت واپس اپنے آبائی شہر نیشاپور لوٹ آئے اور زندگی کے آخری ایام ہہیں گزارے۔ اک روایت کے مطابق قریب مرگ ابن سینا کی مشہورزمانہ تصنیف کتاب الشفا ان کے زیر مطالعہ تھی۔
آخر دسمبر 1131ء کو سائنس کا پیکر، علم کا استعاره اور مجسمِ سخن، عمر خیام اجل کی کشتی پر بیٹھ کر عظمت کی اک طویل داستان چھوڑے ازل کی راہوں پر نکل گیا۔